ABOUT MALIK RIAZ HUSSAIN
Malik Riaz Hussain
بطور سماجی خدمت گزار.
میں سو نہیں سکتا، اگر میرے لوگوں کے پاس کھانا نہ ہو، چھت نہ ہو، یہ الفاظ نامور ارب پتی تاجر ملک ریاض کے ہیں جو کہ ملک کے مشہور رفاہی شخصیات میں سے بھی ایک ہیں۔ ایشاء کی سب سے بڑی نجی ریل اسٹیٹ ڈیولیپمنٹ کمپنی بحریہ ٹاوّن کے بانی ہونے کے علاوہ وہ ایک دور اندیش سماجی شخصیت ہیں جو پختہ یقین رکھتے ہیں کہ سماجی بہبود ان کے منصوبوں کا بنیادی جوہر ہو۔ وہ معاشی مشکلات، ناگہانی واقعات اور قدرتی آفات میں ہمیشہ قوم کی مدد کرتے صف اول میں دکھائی دیتے ہیں۔

میں سو نہیں سکتا، اگر میرے لوگوں کے پاس کھانا نہ ہو، چھت نہ ہو
یہ ان کا سنہرا دل ہے کہ غریب اور کم مراعات یافتہ طبقے کے لیے انہوں نے ایک مکمل ڈیپارٹمنٹ وقف کیا ہوا ہے اور اپنی کمپنی سے براہ راست بہت سے لوگوں کوسماجی اور خیراتی منصوبوں میں شامل کیا ہوا ہے۔ صرف منافع کمانا ان کا مقصد نہیں ہے ، سب سےبڑی زمہ داری یہ ہے کہ معاشرے اور لوگوں کو سہارا دیا جائے اور وہ نعمیتیں جو صرف اشرافیہ کو میسر ہیں وہ معاشرے کے دوسرے لوگوں کے ساتھ بانٹی جائیں۔ معاشرے میں اقتصادی توازن ، خوشحالی کے نظریے اور ہر موقع پر خرچ کرنے کی وجہ سے ان کو قومی اور بین الاقوامی فورمز پر بہت تعریف اور شناخت حاصل ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ آخرت کے عظیم اجر کے حصول کا زریعہ بھی ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ “۔۔۔ اور جس نے کسی کی جان بچائی اُس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔۔۔ ” (سورة5: آیت نمبر32 | ترجمہ: ابواعلیٰ مودودی)
ملک ریاض نے اس آیت کو دل سے لیا ہے اور ہمیشہ لوگوں کی جانیں بچانیں کے لیے فوری پہنچے ہیں آفت زدہ علاقوں میں ریلیف کے کاموں میں بدقسمت لوگوں مہلت مہیا کی ہے یہ کاوشیں مالی، طبی اور خوراک کی فراہمی کے زریعے ان لوگوں کے لیے ہوتی ہیں جومدد کے لیے انتہائی طلبگار ہوں۔ جب بھی قوم پر کوئی مصیبت،سیلاب، زلزلہ یا آفت آتی ہے ملک ریاض بطور بہت سخی، حلیم اور متاثرکن شخصیت کے طور پر ابھرتے ہیں۔ وہ ہمیشہ اپنی دولت کا ایک حصہ ان لاکھوں زندگیوں کی باقائدہ بحالی پر لگاتے ہیں جو دکھی حالات میں پھنسی ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نےمختلف مواقعوں پر حکومت اور بہت سی بین الاقوامی این جی اوز کو انسانی وسائل اور دوسرے انتظامات میں مدد فراہم کی ہے۔
ملک ریاض کی شخصیت کی بنیاد مشترکہ آسودہ حالی ہے اور وہ ہمیشہ سماجی بہبود میں زیادہ سے زیادہ حصہ اپنے مختلف اقدام کے زریعے سے ڈالنے کے لیے تیار رہتے ہیں جیسے دسترخوان جس سے دن میں دو وقت کا مفت کھانا ڈیڑہ لاکھ لوگوں کو مہیا ہوتا ہے، مفت طبی نگہداشت اور مفت تعلیم کے منصوبے شامل ہیں۔ وہ اس بات سے انتہائی دکھی ہوتے ہیں کہ پاکستان میں چھ کروڑلوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں۔ اس لیے انہوں نے ایک فنڈ قائم کیا ہے جو “فنڈ برائے عام پاکستانی آدمی” کے نام سے جانا جاتا ہے اس میں مفت کھانے کے مراکز، مفت تعلیم، صاف پانی، صحت و صفائی اور ہنرمندی میں اضافے کے بنیادی تربیتی ادارے شامل ہیں جو غریب کو روزگار تلاش کرنے کےقابل بناتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ایسے وسیع منصوبے ابدی سکون اور خوشحالی کےطویل سفر کی طرف پہلا قدم ہیں۔
ملک ریاض نے سخاوت کی حدِ نظر سے آگے جاتے ہوئے کارپوریٹ سماجی ذمہ داری میں بے مثال معیار قائم کیے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے سو طاقتور اور امیرترین لوگوں کو خط لکھ کر جو ملک میں معاشرتی اور اقتصادی کشیدگی سے بے پروا ہیں، معاشرے میں عدم مساوات کی خلیج کو پر کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے غریبوں کی حالت زار سے مسلسل لاعلمی کے جلد نتائج بگھتنے سے متنبہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس خط میں انہوں نے ایک مشترکہ فنڈ میں پیسےجمع کرنے پر زور دیا ہے جو گھروں کی مرمت، پیشہ ورانہ تربیت فراہم کرنے اور شکستہ حال لوگوں کے لیے چھوٹے قرضوں کی فراہمی کے لیے استعمال کیا جاسکے۔
نیز انہوں نے ان لوگوں کےلیے جواپنے خاندانوں کے لیے روزی روٹی نہیں کما سکتے مسلسل چلنے والے روزگار کی فراہمی کے لیے پلیٹ فارم بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ اس ضمن میں انہوں نے اپنا کردار بلواسطہ اور براہ راہست 21000 ملازمتیں پیدا کر کے ادا کیا اور 1000 سے زیادہ مقامی سپلائرزکےلیے کاروباری مواقع پیدا کیے ہیں۔ سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہوا ہے ان کی کوششوں سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے خطیر زرمبادلہ حاصل کیا گیا ہے۔
ملک ریاض کی شخصیت کے مذہبی عقائد بہت مضبوط ہیں اور ان کی خواہش ہے ان کے اعمال صحیح معنوں میں اللہ کی شکرگزارکی عکاسی کرتے ہوں۔ ان کی شدید خواہش ہے ہم میں سے ہر ایک حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی مثال کی پیروی کرے جنہوں نے مشکل حالات میں شہد اور گوشت لینا بند کر دیا تھا۔ وہ معاشرے کے محروم طبقوں اور عام آدمی کی مدد کے لیے بے چین ہیں اور مسلسل سوال اٹھاتے ہیں کہ ” کیوں ہم ہمارا شہد اور گوشت ملک کے غریب لوگوں کے ساتھ نہیں بانٹ سکے۔”
جناب حسین کی سماجی بہبود اور غربت کی کمی کے لیے مسلسل جدوجہد دوسروں کے لیے مسلسل تحریک اور حوصلہ افزائی کا ایک زریعہ ہے بااثر ہونے کے ساتھ بدلاﺅ لانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ وہ جدید پاکستان کے خواب کو حقیقت میں بدل کرمسقبل کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اس عظیم قوم کا حصہ ہونے پر فخر کرتے ہیں اور اسکی معاشی اور سماجی ترقی میں آنے والے مہینوں اور سالوں میں اپنا زیادہ سے زیادہ حصہ ڈالنا چاہتے ہیں۔