PHILANTHROPIC ACTIVITIES
ڈیزاسٹر مینجمنٹ
مشکل وقت انسان کے حقیقی کردار کا آئینہ دار ہوتا ہے اور اس کے اندرونی احساسات کی عکاسی کرتا ہے۔ بحیرہ ٹاون کے بانی ملک ریاض اپنی پرشفیق طبیعت اور فراخدلی کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ ناگہانی موقعوں اور آفات میں وہ قوم کی مدد کرنے میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔ ملک ریاض نے بحریہ ٹاون کے زیراہتمام فوری امداد کے لیے خصوصی ریلیف ٹیمز اور ایمرجنسی فلیٹ تیار کررکھے ہیں ان لوگوں کے لیے جو مدد کے لیے بے حد طلبگار ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ پریشان اور غریب لوگوں کی بہتری کے لیے انہوں نے بحریہ ٹاون کا الگ کارپوریٹ سوشل ڈویژن قائم کیا ہے جو مختلف اقدامات اور منصوبوں کو دیکھتا ہے۔
سیلاب، زلزے، آتشزدگی یا اور کوئی تباہ کن حالات ہوں، فوری طبی، غذا اور مالی امداد کے لیے ملک ریاض کی سرپرستی میں ریسکیوٹیمیں آفت زدہ مقامات پر سب سے پہلے پہنچتی ہیں۔ ایک عرصے سے بحریہ ٹاون کی امدادی کاوشیں عقیدے، مذہب اور کلچر سے بالاتر ہو کردکھی لوگوں کی یکساں مدد کےلیے بھروسے کا نشان بن گئی ہیں۔ ان ٹیموں کے پاس جدید سازوسامان اور انکے قابل اعتماد بھروسے کی وجہ سے جائے حادثات پر انکو مختلف کام دئے جاتے ہیں۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں سرکاری اور نجی سطح پر ان ٹیموں کی خدمات کو سراہا گیا ہے۔
2005 میں آنے والے زلزلے جیسے واقعات، 2010 اور 2014کےسیلاب، تھر میں قحط سالی، مارگلہ ٹاور کا زمین بوس ہونا، گھگڑ پلازہ اور میریٹ ہوٹل میں آتشزدگی، میسح برادری پر فائرنگ یا اس جیسے اور واقعات ہوں متحمل مزاج اور ہمدرد ملک ریاض کی طرف سے فوری ردعمل کا اظہار ہوتا ہے۔ وہ مایوس کن حالات مین پھنسے ضرورتمند لوگوں کی خیر اور بھلائی کے لیے کروڑوں روپے خرچ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ھنگامی حالات میں مفت کھانے، کپڑے، خیمے، صاف پانی اور موبائل طبی یونٹس کا انتظام کیا جاتا ہے۔
2005 کا زلزلہ خطے کی تاریخ کا سب سے زیادہ تباہ کن تھا جس میں 73000 سے زائد لوگ جاں بحق ہوئے اور تین لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہوئے۔ زندہ بچ جانے والوں کی انتہائی ضروری مدد کے لیے فوری طور پر بحریہ ٹاون کی امدادی ٹیمیوں کو متحرک کیا گیا۔ رسد کے سامان اورملبہ آٹھانے والی بھاری مشینری کے زریعے بچاوکی کوششیں کی گئیں۔ 10 کروڑ کی لاگت سے 8 بڑے ریلیف کیمپوں کی تعمیر کے لیے 200 سے زائد مشینوں کے یونٹس کو استعمال میں لایا گیا۔ ان کیمپوں میں 36000 کی آبادی کو چھت اور دوسری ضروریاتِ زندگی فراہم کی گئیں۔
بحریہ ٹاون کی انتظامیہ کے لیے اس افراتفری کی صورتحال میں تمام انتظامات کوچلانا ایک مشکل کام تھا مگر یہ کیمپ تین ماہ تک احسن طریقے سے کام کرتے رہے۔ 3 کروڑ مالیت کے امدادی سامان کے ساتھ ٹرکوں کے کاروان راولاکوٹ، بالاکوٹ، مظفرآباد اور باغ کی طرف روانہ کیے گئے۔
اسی طرح 2010 میں آنے والے سیلاب نے پاکستان میں تباہی مچائی تھی۔ اس آفت سے لاکھوں لوگ متاثر ہوئے تھے اور بہت سے لوگ جاں بحق ہوئے تھے۔ مصیبت کی اس گھڑی میں ملک ریاض قومی ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے سب سے آگے رہے اور سیلاب زدہ علاقوں میں ہزاروں متاثرین کو ضروریات زندگی کی اشیاء ، طبی امداد اورخوراک پہنچاتے رہے۔
ان قررتی آفات کے علاوہ، حکومت کی بدانتظامی کی وجہ سے مقامی طور پر مہاجر ہونے والے لوگوں کا بحران سامنے آیا جس سے صوابی، سوات اور جنوبی وزیرستان اور دیگر علاقوں میں 5 لاکھ لوگ سےزائد لوگ مہاجر ہوئے۔ محدود وسائل کے ساتھ اکیلی حکومت کے لیے ان لوگوں کی حالتِ زار کو سنبھالنا ناممکن تھا، جوفوجی آپریشن کے نییجے میں اپنی نوکریاں اور گھر بار کھو چکے تھے۔ صورت حال کی شدت کو دیکھتے ہوئے بحریہ ٹاون نے ضلعی اور صوبائی دونوں حکومتوں کے ساتھ تعاون کیا اوران علاقوں میں امدادی کاروائیاں شروع کرنے کے لیے انسانی وسائل، لاجسٹک سپورٹ اور اپنے بجٹ سے وسائل مہیا کیے۔
صرف متاثرینِ سوات کی امدادی کاروائیوں میں 5 کروڑ سے زائد رقم خرچ ہوئی جس میں طبی امداد، لاجسٹک سپورٹ، پانی اور دوسرے سامان کی تقسیم ریلیف سیل اور کیمپس کا قیام شامل تھا۔ صوابی میں 3 ہزار لوگوں کو چھت فراہم کرنے کے لیے ایک بڑا ریلیف کمیپ لگایا گیا۔ یہاں موجود خاندانوں کی بنیادی خوارک، مالی، طبی، تعلیمی اور دیگر ضروریات کوفوری طور پر پورا کرنے کے لیے مستقل عملہ تعینات کیا گیا۔ ملک ریاض نے خود حکومت پر یہ زور دیا کہ جنوبی وزیرستان کے ایک لاکھ مقامی مہاجرین کی مکمل ذمہ داری انہے سونپی جائے۔ فوجی آپریشن ضرب عضب کے آئی ڈی پیز کے لیے 5 کروڑ کے پیکج کا اعلان کیا گیا۔ ملک ریاض کی سخت جدوجہد اورناامید تنہا لوگوں کی مدد کے لیے ہاتھ بڑھانے کی کوششیں یہاں ختم نہیں ہوتیں۔ ضرورتمندوں کی مدد کے لیے انکا یقینی جوش وجذبہ ایدھی، الشفاء ٹرسٹ، احساس فاونڈیشن اور بہت سی مشہور سماجی بہبود کی تنظیموں کے ساتھ مشترکہ منصوبوں میں بھی نظرآتا ہے۔