MRH VISION
Fund for the Pakistani Common Man
کھلا خط
پاکستان کو محفوظ بنانے کے لیے آئیں سب مل کر قدم بڑھائیں
میں ملک ریاض ہوں ، اللہ تعالیٰ نے اس ملک کے صدقے مجھے پاکستان کے اعلیٰ بزنس مینوں میں شامل کر رکھا ہے لیکن میں آج اعتراف کرتا ہوں کہ اگر یہ ملک نہ ہوتا تونہ میں ہوتا نہ بحریہ ٹاون ہوتا اور نہ ہی لوگ آج میرے نام سے واقف ہوتے، یہ اس ذات پاک اور اس ملک کی دین ہے کہ ہم پاکستان میں ایک “برانڈ” کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں لیکن آج زندگی کے 62 سال پورے کرنے کے بعد میں محسوس کرتا ہوں، میں اس ملک اور اس ملک کےلوگوں کا قرض دار ہوں اور اگر میں نے یہ قرض ادا نہ کیا تو کل کو میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ملزم کی حیثیت سے پیش ہوں گا۔
میں اکیلا اس ملک کا قرض دار نہیں ہوں بلکہ میں محسوس کرتا ہوں میرے دوسرے ارب پتی دوست مثلاً سرانور پرویز، صدرالدین ہاشوانی، ناصر سچون، حاجی عبدالرزاق، میاں محمد منشاء، رفیق حبیب، طارق سہگل، دیوان یوسف، سلطان علی لاکھانی، سیٹھ عابد، میاں محمد لطیف، جہانگیر ترین، اقبال زیڈ احمد، طاہر داود فیملی، شیخانی فیملی، بہرام آواری، رفیق رنگون والا، عقیل ڈیڈی، جہانگیر الہی، شیرازی فیملی، نون خاندان، شہزاد فیملی، یونس برادرز، غنی فیملی، اور سہگل فیملی بھی میری طرح اس ملک کے قرض دار ہیں اور اگر انہوں نے بھی میری طرح اپنے فرض کا احساس نہ کیا تو یہ لوگ اور ان کا کاروبار اس انقلاب کا ایندھن بن جائے گاجو بے روزگاری، غربت، لاقانونیت، کرپشن اور دہشت گردی کی شکل میں اس ملک میں پروان چڑھ رہا ہے۔ ہمارے جاگیرداروں، وڈیروں، سرمایہ داروں، سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور دیگر صنعت کاروں کا ضمیر بھی نہ جاگا تو اس ملک کی زمین ان پر اور ان کے خاندانوں پر بھی تنگ ہوجائے گی۔ میرے ارب پتی دوست ایک لمحے کے لیے سوچیں جس ملک میں نو کروڑ نوجوان بے روزگار ہوں، اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، جس ملک کے عوام نے اپنی روزانہ خوراک سے دس فیصد آٹا کم کر دیا ہو، جس کے 75 فیصد لوگ غریب ہوں اور جس میں 6 کروڑ 20 لاکھ لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہوں اس ملک کے لوگ آخر کیا کریں گے؟ کیا یہ لوگ خوشحال لوگوں کے گلے نہیں کاٹیں گے؟ کیا یہ لوگ ہم جیسے لوگوں کے گھر نہیں جلائیں گے اور کیا یہ لوگ ہماری گاڑیاں نہیں توڑیں گے؟ جی ہاں! یہ لوگ اپنے جذبہ انتقام کو ٹھنڈا کرنے کے لیے وہ سب کچھ کریں گے جس کی ہم آج توقع تک نہیں کرسکتے، ہم نے اگر آج ان کے آنسو نہ پہنچے، ہم نے اگر آج ان کی نیند اور ان کے آرام کا خیال نہ کیا تو یقین کیجیئے یہ لوگ ہمیں آرام کی نیند نہیں سونے دیں گے، یہ ہمیں آرام کی زندگی نہیں گزارنے دیں گے۔
میں تسلیم کرتا ہوں پاکستان میں غریب اور امیر کے درمیان پہاڑ اور پستی جتنا فاصلہ ہے، اس ملک میں ایک طرف ساڑھے چھ کروڑ لوگوں کو ایک وقت کا کھانا میسر نہیں اور دوسری طرف ہم لوگ ذاتی عیش و عشرت پر روزانہ دس بیس لاکھ روپے خرچ کر ڈالتے ہیں، ہم نے اگر معاشرتی تفریق کی یہ خلیج کم نہ کی تو مجھے خطرہ ہے اس ملک کے محروم لوگ ہم سے ہماری دولت، ہمارا آرام اور ہمارا عیش چھین لیں گے چناچہ میں اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اس ملک کے ارب پتیوں کو اس نیک مقصد میں شامل ہونے کی دعوت دیتا ہوں۔ آئیں ہم سب لوگ پانچ پانچ کروڑ روپے جمع کریں، اور اس رقم سے غریب پاکستانیوں کیلئے ایک فنڈ قائم کریں، اس کے ساتھ ہم فنڈ میں ہر مہینے بیس بیس لاکھ ڈالتے رہیں، یہ بیس لاکھ روپے ہماری کلاس کے لوگوں کیلئے بیس روپے کی حیثیت رکھتے ہیں اور تمام ارب پتی افراد بڑی آسانی سے ہر مہینے یہ رقم دے سکتے ہیں، یہ فنڈ اربوں روپے کا ہوگا اور بعدازاں اس میں ہر مہینے کروڑوں روپے جمع ہوتے رہیں گے۔ ہم اس فنڈ سے پورے ملک میں سینکڑوں دسترخوان قائم کرسکتے ہیں جہاں روزانہ اڑھائی کروڑ لوگ باعزت طریقے سے کھانا کھا سکتے ہیں، اس فنڈ سے ہم چھوٹے چھوٹے ہسپتال بھی قائم کرسکتے ہیں۔
جن میں لاکھوں لوگوں کو علاج کی مفت سہولیات حاصل ہوگی۔ ہم اس فنڈ سے ووکیشنل ٹرینگ سنٹرز بنا کر لاکھوں بے ہنر لوگوں کو کارآمد بنا سکتے ہیں۔ ہم اس فنڈ سے لوگوں کو بنگلہ دیش کے گرامین بینک کی طرح چھوٹے چھوٹے بلا سود قرضے بھی دے سکتے ہیں جس سے کروڑوں لوگ خوشحال ہو جائیں گے اور ہم یہ رقم سوشل چینج کیلئے بھی استعمال کر سکتے ہیں، یہ ” فنڈ فار پاکستانی عوام” ہوگا، ہم اس کا آغاز اپنی ذات سے کریں گے اور بعدازاں عام لوگوں کو بھی اس میں اپنا حصہ ڈالنے کی دعوت دیں گے۔ مجھے یقین ہے اس ملک کے لاکھوں کروڑوں لوگ اس کار خیر میں اپنا حصہ ڈالیں گے جس سے ہمارے رزق میں بھی وسعت آئے گی اور اس ملک کے غریب عوام کا مقدر بھی بدل جائے گا۔
میں اعتراف کرتا ہوں میری کلاس کے لوگ 18 ڈگری سینٹی گریڈ ٹمپریچر میں کمبل لے کر سوتے ہیں جبکہ ہمارے ورکرز 46 ڈگری سینٹی گریڈ میں ہمارے لئے کام کرتے ہیں، ہمارے گھروں میں دولت کے انبار لگ رہے ہیں جبکہ ان بے چاروں کیلئے چولہا تک جلانا مشکل ہو گیا ہے، یہ لوگ لوہا پگھلانے والی اس گرمی میں ہمارے لئے کام کرتے ہیں اور ہماری صحت اور سلامتی کیلئے دعائیں بھی کرتے ہیں لیکن ان کی سلامتی کیلئے دعا کون کرے گا؟ ان کی صحت کا خیال کون رکھے گا؟ کیا یہ ہماری ذمہ داری نہیں؟ کیا ان کا خیال رکھنا ہمارا فرض نہیں؟ حضرت عمر فاروقؓ کے تقویٰ تک نہیں پہنچ سکتے لیکن کیا ہم اپنے شہد اور اپنے گوشت میں ان لوگوں کو حصہ دار نہیں بنا سکتے؟ فرانس کے شہنشاہ لوئیس نے اپنے لئے “شتودی وارسائی” جیسا محل بنایا تھا۔ یہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا مہنگا محل تھا وہ بھی ہماری طرح ٹھنڈے کمروں میں سوتا تھا اور فرانس کے عام لوگ غربت اور بھوک کے جہنم میں جلتے تھے چناچہ اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ بھوک کے جہنم میں جلتے عوام نے اپنے شہنشاہ کو اسی محل کےسامنے چھوٹے چھوٹے ٹکروں میں تقسیم کردیا۔ کیا ہم بھی اس انجام کی طرف نہیں بڑھ رہے؟ ایران کے رئیسوں کا انجام بھی ہمارے سامنے ہے، یہ لوگ شاہ ایران کے دور میں کتوں کی شادی پر دو دو ہزار لوگوں کی دعوت کرتے تھے جبکہ عوام اس وقت سڑکوں پر “بھوک مارچ” کرتے تھے لہذا اس کا کیا نتیجہ نکلا، ایران کے وہ رئیس آج یورپ اور امریکہ میں اپنے وطن کو ترستے ہوئے مر رہے ہیں اور انہیں دفن ہونے کےلیے اپنے وطن میں دو من مٹی تک نصیب نہیں ہو رہی۔ کیا ہم یہ بھی یہ انجام چاہتے ہیں؟ اگر نہیں، تو میں اپنے دوستوں کو دعوت دیتا ہوں، خدا کیلئے چند کروڑ روپے کی قربانی دے دو تم بھی بچ جاؤ گے، تمہارا بزنس بھی اور یہ ملک بھی، ورنہ اس ملک کے محروم لوگ ہم سے سب کچھ چھین لیں گے۔
آئیے پاکستان اور پاکستانیوں کیلئے فنڈ قائم کریں جس میں ہر وہ شخص جس کے پاس ہزار روپے ہیں، وہ سو روپے آمدنی والے خاندان کی مدد کرے تاکہ ہم مل کر اپنے ہم وطنوں کو مصیبت کی اس گھڑی سے نکال سکیں۔ میں اس کارخیر کا آغاز اپنی ذات سے کرتا ہوں۔ میں پہلے پانچ کروڑ روپے پیش کرتا ہوں اور اس کے بعد اس ملک کے ان تمام لوگوں کے دروازوں پر دستک دیتا ہوں جنہیں اس ملک اور اس ملک کے عوام کیلئے تاکہ ہم اس ملک کو خونی انقلاب سے بچا سکیں، ہم اس ملک کے عوام کو ایران کے انقلابی عوام اور فرانس کے خونی عوام بننے سے روک سکیں۔
میری تمام دوستوں سے درخواست ہے کہ وہ اس سلسلے میں ایک کمیٹی تشکیل دیں جس کے ذریعے ایک انڈیپنڈنٹ اکاؤنٹ کا تعین بھی کیا جائے جس میں یہ رقم جمع کی جاسکے۔
ملک ریاض حسین
بانی بحریہ ٹاؤن