PHILANTHROPIC ACTIVITIES
بحریہ دسترخوان
” اور اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔ اور اُن سے کہتے ہیں کہ ہم تمہیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں، ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ ”
(سورة 76: آیت نمبر8،9 | ترجمہ: ابواعلیٰ مودودی)
بھوکے کوکھانا کھلانا اورغریبوں کی مدد کرنا اسلامی عقیدے کا ایک اہم جزو ہے۔ ہمارے مذہب میں اس عمل کی بہت ترغیب دی گئ ہے یہاں تک کہ اسے مالی عبادات میں شامل کیا گیا ہے۔
قرآن مجید کے ساتھ احادیث میں بھی حضرت محمد ﷺ نے نادار لوگوں کو خوراک مہیا کرنےپر زور دیا ہے۔ دنیا سے مصائب اور بھوک کو ختم کرنے کے لیے اسلام کا مکمل معاشی وسماجی نظام راہنمائی فراہم کرتا ہے تاکہ خوشحالی اور ہم آہنگی لائی جا سکے۔ مگر بدقسمتی سے ان سنہری اصولوں پر سہی معنوں میں عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ ملک ریاض کی طرح کے لوگ زیادہ نہیں ہیں جو امیر لوگوں سے زیادہ اللہ کی خوشنودی کو ترجیح دیں اور اپنے لوگوں کے بھلائی کا سوچیں۔
ایشیا کے سب سے بڑے رئیل اسٹیٹ ڈویلپر ملک ریاض نے ہمیشہ مزہبی اقدار کو اپنے دل کے قریب رکھا ہے۔ وہ ہمیشہ اپنے قابل ستائش سماجی فلاحی منصوبوں کے زریعے جن کی فہرست طویل ہے، ضرورتمندوں کی مدد کے لیے پرعظم رہتے ہیں۔ دسترخوان انہی منصوبوں میں سے ایک ہے جو کہ کاروباری سماجی زمہ داری کے تحت آتا ہے۔ یہ منصوبہ کلی طور پر عام آدمی کو آسانی اور مدد فراہم کرتا ہے جو بنیادی خوراک حاصل نہیں کرسکتا۔ یہ ایک بے نظیر اقدام ہے جو پاکستان بھر میں ایک لاکھ سے زائد لوگوں کو دو وقت کا مفت کھانا فراہم کر رہا ہے۔ اس وقت پندرہ سے زیادہ دسترخوان کے مراکز کراچی، لاہور، ملتان، اسلام اباد، لاڑکانہ اور راولپنڈی جیسے بڑے شہروں میں ہوچکے ہیں۔ ان بڑے شہروں کے علاوہ غربت اور خوراک کی کمی کا شکار چھوٹے علاقوں جیسے تھرپارکر اور بنو میں بھی مفت دسترخوان چلائے جا رہے ہیں۔
بنو میں مقامی طور پر مہاجر ہونے والے لوگوں کو باقائدگی سے کھانا فراہم کرنے کے لیے تین دسترخوان بنائے گئے ہیں۔ یہاں غیر معمولی کھانوں کی اقسام میں خاص افطاری کے انتظامات کے ساتھ بریانی اور جوسزبھی شامل ہیں۔ تھرپارکر میں مستقل بنیادوں پر ایک دسترخوان قائم کیا گیا ہے جو کہ ایک وقت میں ڈیرہ سو افراد کو کھانا کھلانے کی گنجائش رکھتا ہے اور ایک دن میں تقریبا تین ہزار لوگوں کو کھانا فراہم کرتا ہے۔ ایک واٹر پلانٹ بھی اس علاقے میں نصب کر دیا گیا ہے۔ یہ کاوشیں طویل عرصے سے کسمپرسی اور بھوک کی زندگی گزارنے والی 60 ہزار کی آبادی کو بنیادی خوراک اور پانی کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے ہیں۔
یہ دسترخوان تین ہزار لوگوں کی باآسانی گنجائش کے ساتھ ہفتے کے 7 دن اور سال کے 365 دن کام کریں گے۔ لوگوں کو یہاں جن میں مردوں اور عورتوں کو الگ بہترین ماحول میں حفظان صحت کے معیار کے مطابق دوپہر اور رات کا کھانا دیا جاتا ہے۔ دسترخوان پر آنے والے ہر شخص سے مہمان کی طرح سلوک کیا جاتا ہے تاکہ اس کی خوداری کو ٹھیس نہ پہنجے۔ یہاں کے دروازے ہر ایک کے لیے کھلے ہیں اوران مہمانوں پر کھانے کی مقدارکے حوالے سے کوئی پابندی عائد نہیں ہے۔
کھانے کے مقدار کے علاوہ اس کے معیار کی نگرانی کے لیے خصوصی کاوشیں کی گئی ہیں۔ ہر دسترخوان کا اپنی حدود میں الگ کچن ہے۔ یہاں سٹاف سے ہر روز تازہ کھانا تیار کروایا جاتا ہے۔ کھانا حفظان صحت کے اصولوں کو مدِنطر رکھتے ہوئے تیار کیا جاتا ہے۔ کھانے میں گوشت اور دالیں بدل بدل کر آتی رہتی ہیں۔۔ اتوار کے روز میٹھے کے طور پر حلوہ بھی دیا جاتا ہے۔ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں خصوصی افطار پیش کیا جاتا ہے۔
دسترخوان کی جگہ انتہائی احتیاط کے ساتھ منتخب کی جاتی ہے جہاں اس طرح کی خدمت کی اشد ضرورت ہو تاکہ زیادہ سے زیادہ ضرورت مند لوگوں کو کھانا فراہم کیا جا سکے۔ ان میں سے زیادہ تر دسترخوان ہسپتالوں میں ہیں جہاں مریضوں اور ان کے رشتہ داروں کو کھانا فراہم کیا جاتا ہے کیونکہ وہ وہاں مالی ابتری کا شکار ہوتے ہیں۔
اس فراخدلانہ منصوبے کے اثرات نہ صرف ان غریبوں نے محسوس کیے جو یہاں کھانے کے لیے آتے ہیں بلکہ ان کے پیچھے ان کے خاندان بھی مشکل سے کمائے گئے پیسوں سے مستفید ہوتے ہیں جو یہ ہر مفت کھانا کے بدلے بچاتے ہیں۔ زیادہ تر کم آمدنی والے طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ ان دسترخوانوں پر آتے ہیں اور وہ باآسانی ماہانہ دو ہزار روپے اپنے کھانے کے بچاتے ہیں کیونکہ باہر سے ایک فرد کو کھانے 45 روپے میں پڑتا ہے۔ یہ رقم باالآخر روزانہ کے دوسرے اخراجات کو پورا کرنے میں غریبوں کی مدد کرتی ہے۔
اس وسیع فلاحی خوراک کے منصوبے پر 35 ملین تک لاگت آتی ہے جس سے سالانہ ایک کروڑ 5 لاکھ کھانے فراہم کیے جاتے ہیں۔ اگلے دو سالوں میں اس کے اخراجات 80 ملین تک بڑھ جائیں گے۔ مگریہ حد سے گزرتے اعدادوشمار ملک ریاض جیسے آدمی کی جذبے کو شکست نہیں دے سکتے۔ وہ آخرت کے اجرعظیم کے علاوہ لاکھوں افراد کی دعائیں اور دل جیتنے کے لیے پرعظم ہیں۔
اکرم بھٹی دسترخوان کا باقائدہ مہمان ہے وہ اس غیرمعمولی کاوش کے لیے بھرپور دعاگو ہے اور مشکور ہے۔ “میں اس سہولت کے لیے ملک ریاض کا انہتائی شکرگزار ہوں۔ یہ قابل افسوس ہے کہ اس طرح کی سہولت اس پیمانے پر کسی اور نے نہیں مہیا کی حالانکہ حکومت بھی اس جیسی چیز کو برقرار نہی رکھ سکی۔ میری طرف سے ان کے اور ان کی کمپنی کے لیے نیک تمنائیں اور اب وہ ہمیشہ ہماری دعاوں میں شامل رہیں گے۔
ملک ریاض نے ہمیشہ لاکھوں لوگوں کی بھوک کو سیر کرنے اور قوم کی سماجی اور معاشی ترقی میں حصہ ڈالنے کے قابل ہونے پر عزت اور فخر محسوس کیا ہے۔ ” یہ منصوبہ مجھے سب سے عزیز ہے۔ بافضلِ خدا ہم روزانہ 35 ہزار لوگوں کودو وقت کا مفت کھانا فراہم کر رہے ہیں۔ ۔ ہم انشااللہ موجودہ چلتے 10 کےعلاوہ مزید دسترخوان کھولیں گے۔ میں اللہ قادر مطلق کا بے حد شکرگزار ہوں جس میں مجھے اس حد تک بخشا کہ میں دوسروں کی خدمت کر سکوں۔”
پاکستان جیسے ممالک جہاں 60 ملین لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں وہاں حکومت کے لیے ناممکن ہے کہ وہ ایسے سماجی بہبود کے منصوبے خود سے شروع کر سکے۔ معاشرے پر غربت کے گہرے سائے چھائے ہوئے ہیں اور اشرافیہ اور کم مراعات یافتہ طبقے کے درمیان سماجی کشیدگی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ایسے حالات میں ملک ریاض نے لوگوں کے لیے ایک مثال قائم کی ہے کہ وہ آگے آئیں اور میں معاشی تفاوت کو کم کرنے کے لیے سماجی طور پر ذمہدار اور پائیدار منصوبوں پر عمل کریں۔ ملک ریاض کے باہمی خوشحالی کے خیال نے عوام کی زندگی اور دلوں کو چھو لیا ہے اور بہتر اور خوشحال روشن مستقبل کی امید پیدا کردی ہے۔